Thursday, June 29, 2017

کردار کا سید


شاہ جی کا گھرانہ جب سے پڑوس میں آباد ہوا تھا محلے میں غیر محسوس انداز سے چند اچھی روایات کا پھر سے احیاء ہوا تھا ۔ لیکن اس میں سارا کمال ان کے چھوٹے سے کم سن برخودار زین کا تھا۔ وہ تقریبا” ہر روز کوئی نہ کوئی کھانے کی چیز یا سالن بھلے تھوڑی سی مقدار ہی میں صحیح لیکن ہمسائے میں بانٹنے آتا ۔ بڑی معصومیت سے پلیٹ پکڑاتے ھوئے کہتا ۔۔” نانا جی نے بھیجا ہے ” ہم شکریہ سے رکھ لیتے اور نانا جی کو سلام کا کہتے وہ فورا” وعلیکم السلام کہہکر پلٹ جاتا۔ کبھی کسی کی ولادت کا ختم کبھی کسی کی شہادت کا۔ ہم بڑوں تک کو معلوم
نہ ہوتا لیکن متانت سے رکھ لیتے۔ کبھی ویسے ہی تحفتہ” کہ ہم نے بوٹی چاول بنائے تھے۔ آپ بھی لیں۔ بہت پیارا اور حسین سا معصوم چہرہ تھا لیکن ماں یا نانا کی تربیت بھی خوب تھی ۔ اب شرما شرمی اور بھی کچھ گھرانے ایک دوسرے کے ساتھ مل بانٹ کر کھانا شروع ھو گئے تھے اور بچے ہی نہیں ہم بڑے بھی سلام کرنے میں پہل کرنے لگے تھے۔ لیکن ہم نے اس کے والد کے سواء کم ہی کسی کو دیکھا تھا۔ سید تھے تو پردہ تو سخت تھا ہی ۔ لیکن نانا جی بھی کبھی چھت یا گلی میں نظر نہ آئے ۔ چھت پر بھی وہی بچہ پرندوں کو دانہ دنکا ڈالتا نظر آتا۔ لیکن آج تو کمال ہی ھو گیا۔ میں چھوٹے شاہ جی سے پلیٹ پکڑ ہی رہا تھا کہ زلزلہ آگیا۔ زلزلہ شدید تھا ۔ میں اور باقی محلے دار تیزی سے باہر کو لپکے ۔ لیکن چھوٹے شاہ جی نے اچانک عجب حرکت کی۔ اس بچے نے بڑی زور سے زمین پر داہنا پاوں اٹھا مارا اور تحمکانہ لہجے میں گویا ھوا ۔ اے زمین مت کر ! دیکھتی نہیں … ہم کھڑے تو ہیں ؟ زلزلہ تو خیر رک ہی گیا لیکن ہمیں ہنسی آگئی ۔
ہم سب نے ننھے زین کو گھیر لیا ۔ وہ گھر کو پلٹ رہا تھا کہ میں نے پوچھا ۔ شاہ جی اگر یہ آپ کی بات نہ مانتی تو ؟وہ بے نیازی سے بولا ۔ کیسے نہ مانتی ! میں نے کہا پھر بھی اگر نہ مانتی تو ؟ نہیں نانا جی نے بتایا ہے ایسا نہیں ہو سکتا ۔عجب یقین و اطمینان تھا لہجے میں اور اک شان بے اعتنائی جو ہم بڑوں کو اب چبھ رہی تھی ۔ آج اپنے نانا جان سے تو ملواو ۔ہیں ؟ اب وہ تیزی سے پلٹا تھا اور حیران ہماری جانب دیکھ رہا تھا آپ لوگ نانا جان سے نہیں ملے ؟ عجب بے یقینی حیرت و اچنبا تھا اس لہجے میں! شیخ صاحب بولے یار ہمیں تو وہ کبھی باہر نظر ہی نہیں آئے ؟ آپ سب ان کو نہیں دیکھتے ؟ وہ حیران و پریشان ھو گیا تھا ۔تاسف اور شدید درد تھا اس لہجے میں ۔ کیونکہ ہم سب یک زبان بولے تھے ۔ نہیں ۔ اچھا۔ پھر آپ لوگ مدینہ منورہ ہی ھو آئیں ۔ ایک سنسنی کی لہر تھی جو میرے رگ و پے میں دوڑ گئی۔ یہ زلزلہ نہیں بھونچال تھا جو میرے تقوی کے بت کے درپے ہے ۔ میں میں نہیں رہا۔ وہ ذات کا ہی نہیں کردار کا بھی سید نکل آیا تھا

No comments:

Post a Comment

MCM 304 MASS MEDIAN IN PAKISTAN ASSIGNMENT NO 2

MASS MEDIA IN PAKISTAN (MCM-304) Assignment No 2 Marks: 15 Q. 1     Women Magazines focus on the interests of women and the...