خود اعتمادی اور خدا اعتمادی ==================================
بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ سر خود اعتمادی نہیں ہے ہے مجھ میں وہ کیسے پیدا کریں اپنے اندر . حضور والا کم نصیبی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اور ہمارا ماحول ہمیں یہ دونوں چیزیں مہیا نہیں کرتے لیکن اس کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس دلیل کو سہارا بنا لیں اور اپنی ہر سوچ کے ساتھ منسلک کر لیں . میں سر قاسم علی شاہ صاحب کا احسان مند ہوں جنہوں نے چار منٹ میں اس کا فلسفہ بیان کر دیا . خدا پر پورا ایمان خود اعتمادی کی پہلی سیڑھی ہے اور لوگوں پر یقین اس کی ضد ہے . آپ لوگوں پر اعتبار ضرور کریں اس کے بغیر کوئی کام نہیں چل سکتا لیکن امید ، یقین اور توقع صرف خدا سے لگائیں . نتیجے کا انتظار ضرور کریں لیکن بھروسہ الله پر رکھیں . انسان کبھی بھی آپکو مطلوبہ نتیجہ نہیں دے سکتا . ہم زیادہ تر وقت خدشوں کے ساے میں رہتے ہیں کہ یہ نہ ہو جاے، وہ ہو جاے تو پھر کیا ہو گا ، ایسا ہو گیا تو ہم کیا کریں گے ، اس نے ایسا کر دیا تو کیا ہو گا ، ....حضور والا یہ سب کم یقینی کی علامات ہیں . ہم جو دن گزر رہا ہوتا ہے اس پر توجہ نہیں دیتے اور آنے والے کل کے بارے میں پریشان رہتے ہیں اور اس طرح ہمارا آج کا دن بھی خراب ہو جاتا ہے . ہمارا آج کا دن ہی ماضی بنتا ہے اور اسی کی بنیاد پر اگلے دن کی ترتیب بنتی ہے ،
ہمارے ڈر اور خوف کی بڑی وجہ ہماری نیت اور ہمارا ارادہ ہوتا ہے . جب ہم ہر بندے سے صرف مفاد کی خاطر ملیں گے تو مفاد پورا نہ ہونے کر ڈر موجود رہے گا . ہمارا کسی سے ملنا اپنے کسی محفی ارادے کو پورا کرنے کے لیے بھی ہمیں ڈرپوک بنا دیتا ہے . یاد رکھئے گا صاف نیت اور نیک ارادے والا بندہ کسی سے نہیں ڈرتا اور بے دریغ سچ بول دیتا ہے . اب یہاں مسلہ یہ ہے کہ ہم سچ بولتے بھی ہیں تو بڑی حقارت سے . ہمارا مقصد اگلے کو نیچا دکھانا بھی ہوتا ہے. اس میں ہمارا حقارت بھرا لہجہ ہمارے سچ کو دبا دیتا ہے اور یوں ہم سچے ہونے کے باوجود نا پسندیدگی کی زد میں آ جاتے ہیں . آپ سچ ضرور بولیں لیکن دوسرے کی عزت نفس کا بھی خیال رکھیں ، آپ نیت صاف اور ارادہ نیک رکھیں لیکن دوسرے بندے کو دکھانے کے لیے نہیں اپنے رب کے لیے . آپ دوسروں کے کام آئیں لیکن بدلے کی توقع صرف رب سے رکھیں . خدا کا خوف آپکو ساری محلوق کے ڈر سے آزاد کر دیتا ہے . خدا سے محبّت آپکو سب لوگوں سے محبت پر مجبور کر دیتی ہے . الله سائیں ہمیں اپنی اور اپنے حبیبﷺ کی محبّت نصیب کرے . امین
--------------------------
بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ سر خود اعتمادی نہیں ہے ہے مجھ میں وہ کیسے پیدا کریں اپنے اندر . حضور والا کم نصیبی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اور ہمارا ماحول ہمیں یہ دونوں چیزیں مہیا نہیں کرتے لیکن اس کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس دلیل کو سہارا بنا لیں اور اپنی ہر سوچ کے ساتھ منسلک کر لیں . میں سر قاسم علی شاہ صاحب کا احسان مند ہوں جنہوں نے چار منٹ میں اس کا فلسفہ بیان کر دیا . خدا پر پورا ایمان خود اعتمادی کی پہلی سیڑھی ہے اور لوگوں پر یقین اس کی ضد ہے . آپ لوگوں پر اعتبار ضرور کریں اس کے بغیر کوئی کام نہیں چل سکتا لیکن امید ، یقین اور توقع صرف خدا سے لگائیں . نتیجے کا انتظار ضرور کریں لیکن بھروسہ الله پر رکھیں . انسان کبھی بھی آپکو مطلوبہ نتیجہ نہیں دے سکتا . ہم زیادہ تر وقت خدشوں کے ساے میں رہتے ہیں کہ یہ نہ ہو جاے، وہ ہو جاے تو پھر کیا ہو گا ، ایسا ہو گیا تو ہم کیا کریں گے ، اس نے ایسا کر دیا تو کیا ہو گا ، ....حضور والا یہ سب کم یقینی کی علامات ہیں . ہم جو دن گزر رہا ہوتا ہے اس پر توجہ نہیں دیتے اور آنے والے کل کے بارے میں پریشان رہتے ہیں اور اس طرح ہمارا آج کا دن بھی خراب ہو جاتا ہے . ہمارا آج کا دن ہی ماضی بنتا ہے اور اسی کی بنیاد پر اگلے دن کی ترتیب بنتی ہے ،
ہمارے ڈر اور خوف کی بڑی وجہ ہماری نیت اور ہمارا ارادہ ہوتا ہے . جب ہم ہر بندے سے صرف مفاد کی خاطر ملیں گے تو مفاد پورا نہ ہونے کر ڈر موجود رہے گا . ہمارا کسی سے ملنا اپنے کسی محفی ارادے کو پورا کرنے کے لیے بھی ہمیں ڈرپوک بنا دیتا ہے . یاد رکھئے گا صاف نیت اور نیک ارادے والا بندہ کسی سے نہیں ڈرتا اور بے دریغ سچ بول دیتا ہے . اب یہاں مسلہ یہ ہے کہ ہم سچ بولتے بھی ہیں تو بڑی حقارت سے . ہمارا مقصد اگلے کو نیچا دکھانا بھی ہوتا ہے. اس میں ہمارا حقارت بھرا لہجہ ہمارے سچ کو دبا دیتا ہے اور یوں ہم سچے ہونے کے باوجود نا پسندیدگی کی زد میں آ جاتے ہیں . آپ سچ ضرور بولیں لیکن دوسرے کی عزت نفس کا بھی خیال رکھیں ، آپ نیت صاف اور ارادہ نیک رکھیں لیکن دوسرے بندے کو دکھانے کے لیے نہیں اپنے رب کے لیے . آپ دوسروں کے کام آئیں لیکن بدلے کی توقع صرف رب سے رکھیں . خدا کا خوف آپکو ساری محلوق کے ڈر سے آزاد کر دیتا ہے . خدا سے محبّت آپکو سب لوگوں سے محبت پر مجبور کر دیتی ہے . الله سائیں ہمیں اپنی اور اپنے حبیبﷺ کی محبّت نصیب کرے . امین
--------------------------
No comments:
Post a Comment