کسی گھرمیں ایک عجیب وغریب ناگن رہتی تھی جو روزانہ سونے کا ایک انڈا دیاکرتی۔گھر کا مالک مفت کی دولت ملنے پر بہت خوش تھا۔ اس نے گھروالوں کوتاکید کر رکھی تھی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتائیں۔کئی ماہ تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ایک دن ناگن اپنے بل سے نکلی اوران کی بکری کوڈَس لیا۔اس کازہرایساجان لیواتھاکہ دیکھتے ہی دیکھتے بکری کی موت واقع ہوگئی۔ یہ دیکھ کر گھروالوں کو بڑاطیش آیا اور وہ ناگن کو ڈھونڈنے لگے تاکہ اسے مارسکیں مگر اس شخص نے یہ کہہ کر انہیں ٹھنڈا کردیا کہ ’’ہمیں ناگن سے ملنے والے کے انڈے کا نفع بکری کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے، لہٰذاپریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘کچھ عرصہ بعد ناگن نے ان کے پا لتو گدھے کوڈَس لیا جو فوراً مرگیا۔ اب تو وہ شخص بھی سخت گھبرایا مگر لالچ کے مارے اس نے فوراً خود پر قابو پالیا اور کہنے لگا : ’’اس نے آج ہمارا دوسرا جانور مارڈالا ،خیر کوئی بات نہیں ،اس نے کسی انسان کو تونقصان نہیں پہنچایا۔‘‘ گھروالے چپ ہورہے۔ اس کے بعد دوسال کا عرصہ گزر گیا مگر ناگن نے کسی کو نہیں ڈسا ، اہل خانہ بھی اپنے جانوروں کے نقصان کو بھول گئے۔پھر ایک دن ناگن نے ان کے غلام کو ڈَس لیا۔اس بے چارے نے مددکے لئے اپنے مالک کوپکارا،مگر اِس سے پہلے کہ مالک اْس تک پہنچتا، زہرکی وجہ سے غلام کاجِسم پھٹ چکاتھا۔اب وہ شخص پریشان ہوکرکہنے لگا:’’ اس ناگن کازہرتوبہت خطرناک ہے ،اس نے جس جس کو ڈَسا وہ فوراًموت کے گھاٹ اُتر گیا ، اب کہیں یہ میرے گھر والوں میں سے کسی کو نہ ڈس لے۔‘‘
کئی دن اسی پریشانی میں گزرگئے کہ اس ناگن کا کیا کیا جائے؟ دولت کی حرص نے ایک بار پھر اس شخص کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور اس نے یہ کہہ کر اپنےگھر والوں کو مطمئن کر دیا :’’اگرچہ اس ناگن کی وجہ سے ہمیں نقصان ہو ر ہا ہے مگر سونے کے انڈے بھی تو ملتے ہیں ، لہٰذاہمیں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔‘‘کچھ ہی دنوں بعدناگن نے اس کے بیٹے کوڈس لیا۔ فوراًطبیب کو بلایا گیا لیکن وہ بھی کچھ نہ کرسکااوراس کی موت واقع ہوگئی۔جوان بیٹے کی موت میاں بیوی پر بجلی بن کر گری اوروہ شخص غضبناک ہوکر کہنے لگا:’’اب میں اس ناگن کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘مگر وہ اْن کے ہاتھ نہ آئی۔ جب کافی عرصہ گزر گیا تو سونے کا انڈہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی لالچی طبیعت میں بے چینی ہونے لگی، چنانچہ دونوں میاں بیوی ناگن کے بل کے پاس آئے،وہاں کی صفائی کی اور دھو نی دے کر خوشبومہکائی،یوں ناگن کو صلح کا پیغام دیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر وہ واپس آگئی اور انہیں پھر سے سونے کا انڈاملنے لگا۔ مال ودولت کی حرص نے انہیں اندھا کردیا اور وہ اپنے بیٹے اورغلام کی موت کوبھی بھول گئے۔پھرایک دن ناگن نے اس کی زوجہ کو سوتے میں ڈس لیا،تھوڑی ہی دیر میں اس نے بھی تڑپ تڑپ کرجان دے دی۔اب وہ لالچی شخص اکیلارہ گیاتواس نے ناگن والی بات اپنے بھائیوں اوردوستوں کو بتا ہی دی۔سب نے یہی مشورہ دیا:’’تم نے بہت بڑی غلطی کی،اب بھی وَقت ہے سنبھل جاؤاور جتنی جلدی ہوسکے اس خطرناک ناگن کومار ڈالو۔‘‘ اپنے گھر آکر وہ شخص ناگن کو مارنے کے لئے گھات لگا کر بیٹھ گیا۔اچانک اسے ناگن کے بل کے قریب ایک قیمتی موتی نظرآیاجسے دیکھ کراس کی لالچی طبیعت خوش ہوگئی۔
دولت کی ہَوَس نے اسے سب کچھ بھلا دیا،وہ کہنے لگا: ’’وقت طبیعتوں کوبدل دیتاہے، یقینااس ناگن کی طبیعت بھی بدل گئی ہوگی کہ جس طرح یہ سونے کے انڈوں کے بجائے اب موتی دینے لگی ہے، اسی طرح اس کازہربھی ختم ہوگیا ہوگا،چنانچہ اب مجھے اس سے کوئی خطرہ نہیں۔‘‘یہ سوچ کر اس نے ناگن کو مارنے کا اِرادہ ترک کردیا۔روزانہ ایک قیمتی موتی ملنے پر وہ لالچی شخص بہت خوش رہنے لگااورناگن کی پرانی دھوکہ بازی کوبھول گیا۔ایک دن اس نے ساراسونااور موتی برتن میں ڈ الے اور اس پر سر رکھ کر سوگیا۔اسی رات ناگن نے اْسے بھی ڈس لیا۔ جب اس کی چیخیں بلندہوئیں توآس پاس کے لوگ بھاگم بھاگ وہاں پہنچے اوراس سے کہنے لگے:’’ تم نے اسے مارنے میں سْستی کی اورلالچ میں آکراپنی جان داؤ پر لگا دی !‘‘لالچی شخص شرم کے مارے کچھ نہ بول سکا ،سونے سے بھراہوابرتن اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے حوالے کیا اور کراہتے ہوئے بڑی مشکل سے کہا:’’آج کے دن میرے نزدیک اس مال کی کوئی قدر وقیمت نہیں کیونکہ اب یہ دوسروں کاہوجائے گا اورمیں خالی ہاتھ اس دنیا سے چلاجاؤں گا۔‘‘کچھ ہی دیرمیں اْس کا اِنتقال ہوگیا۔
No comments:
Post a Comment