شعوری عبادت
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یعنی آدمی بظاہر نماز اور روزه اور زکوۃ اور حج اور عمره کے عمل کرتا ہے، حتی کہ آپ نے تمام اعمال خیر کا ذکر کیا، پهر آپ نے فرمایا مگر قیامت کے دن وه صرف عقل کے بقدر اس کا بدلہ پائے گا-(رواه البیهقی فی شعب الایمان،رقم الحدیث:4637)
اس حدیث رسول میں "عقل" کا لفظ استعمال هوا ہے-عقل سے مراد فہم ہے-اس روایت میں عقل سے مراد وہی چیز ہے جس کو شعور کہا جاتا ہے- حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذکر و عبادت کے اعمال کرتا ہے، لیکن ان اعمال کا انعام ان کے فارم یا کمیت کے اعتبار سے نہیں دیا جاتا، بلکہ اعمال کی اصل اسپرٹ کے اعتبار دیا جاتا ہے، کسی آدمی نے جس درجہ شعور کے ساته عبادت کی هو گی، اسی درجہ شعور کے اعتبار سے اس کے عمل کا انعام مقرر کیا جائے گا-
مثلا ایک آدمی عبادت کرتا ہے،لیکن اس کی عبادت،قرآن کے مطابق،سہو (absent mindedness( کے ساته هوتی ہے- بظاہر وه عبادتی افعال کر رہا هوتا ہے، لیکن شعور کے اعتبار سے وه غفلت کی حالت میں هوتا ہے-ایسا آدمی غیر مطلوب عبادت کر رہا ہے- ذکر و عبادت کی مطلوب صورت وه ہے جب کہ آدمی کا وه حال هو جائے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی یاد سے اس کا دل دہل اٹهے(الانفال:2) اور اس کے جسم کے رونگٹے کهڑے هو جائیں(الزمر:23) یہ دوسرا آدمی زنده شعور کے ساته ذکر و عبادت کا عمل کرتا ہے- اللہ کے یہاں تمام بڑے بڑے انعامات اس انسان کو دئے جائیں گے جس نے اس طرح زنده شعور کے ساته ذکر و عبادت کا عمل کیا هو-
عبادت کے اس اعلی درجے کو حاصل کرنے کے لیے آدمی کو چاہئے کہ وه اپنے آپ کو غیر متعلق چیزوں میں مشغول هونے سے بچائے اور ہمیشہ اللہ تعالی سے ترقی ایمان کی دعا کرتا رہے-
No comments:
Post a Comment