Tuesday, June 27, 2017

” شوہر کی غیرت “


ایک عورت مکمل پردے کے عالم میں قاضی کے سامنے کھڑی تھی. اس نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا تھا. مقدمے کی نوعیت بڑی عجیب تھی کہ میرے شوہر کے ذمہ مہر کی 500 دینار رقم واجب الاداء ہے وہ ادا نہیں کر رہا.لہذا مجھے مہر کی رقم دلائی جائے.. قاضی نے خاوند سے پوچھا تو اس نے انکار کر دیا. عدالت نے عورت سے گواہ طلب کیے.. عورت نے چند گواہ عدالت میں پیش کر دیے۔گواہوں نے کہا:” ہم اس عورت کا چہرہدیکھ کر ہی بتا سکتے ہیں کہ یہ واقعی وہ عورت ہے جس کی گواہی دینے ہم آئے ہیں. لہذا
عورت کو حکم دیا جائے کہ وہ اپنے چہرے سے نقاب ہٹائے۔”
عدالت نے حکم دیا کہ عورت اپنے چہرے سے نقاب اتارے تاکہ گواہ شناخت کر سکیں.ادھر عورت تذبذب کا شکار تھی کہ وہ نقاب اتارے یا نہیں۔۔۔گواہ اپنے موقف پر مصر تھے۔
اچانک اس کے شوہر نے غیرت میں آکر کہا” مجھے قطعاََ یہ برداشت نہیں کہ کوئی غیر محرم میری بیوی کا چہرہ دیکھے… لہذا گواہوں کو چہرہ دیکھنے کی ضرورت نہیں .. واقعی اس کے مہر کی رقم میرے ذمہ واجب الاداء ہے…۔
عدالت ابھی فیصلہ دینے والی ہی تھی کہ وہ عورت بول اٹھی..!!۔
“اگر میرا شوہر کسی کو میرا چہرہ دکھلانا برداشت نہیں کرتا تو میں بھی اسکی توہین برداشت نہیں کر سکتی. میں اپنا مہر معاف کرتی ہوں. میں غلطی پر تھی جو ایسے شخص کے خلاف مقدمہ دائر کیا..”۔
آج کی بہترین پوسٹس پڑھنے کے لئے نیچے سکرول کریں
چہرہ
ایک دن میں صبح جلدی اٹھ گئی، گیٹ پر بیل بجی تو میں نکل کر باہر گئی تو دیکھا کہ بہت ضعیف آدمی کھڑا تھا اور اس کا چہرہ کچھ عجیب سوجا ہوا تھا۔ در اصل اس کا چہرہ کافی بھیانک لگ رہا تھا۔ اس نے بولا کہ مہربانی کر کے آج کی رات مجھے ادھر پناہ دے دیں، میں آ پ کے محلے کے بہت سے گھروں سے اپنے چہرے کی وجہ سے انکار سن چکا ہوں۔ میرا علاج چل رہا ہے اور اسی لیے میرا چہرہ اتنا بے سروپا ہو گیا ہے ۔ میرے دل میں ہزار عجیب و غریب سوالات اٹھے اور میں نے سوچا کہ اللہ جانے یہ کوئی مجرم نہ ہو اور میرے بچوں کے لیے برا نہ ثابت ہو، اتنے میں اس نے بولا کہ میں ادھر پورچ میں سارا دن اور رات گزار لوں گا بس ایک کرسی دے دیں، صبح سویرے چار بجے کیی بس سے واپس اپنے گاؤں کا رخ کر لوں گا۔ مجھے بہت برا محسوس ہوا اور میں نے اسے اندر بلا لیا۔ میں جب دوپہر کا کھانا لگا چکی تھی تو میں نے بچوں کو آواز دی اور وہ دوڑے آئے تو مجھے اسی آدمی کا خیال آیا اور میں نے اسے بھی اندر بلا لیا۔ اس نے بولا کہ آپ کا بہت شکریہ لیکن میں اندر نہیں آرہا۔
میرے پاس اپنا کھانا ہے اور اس نے مجھے ایک خاکی لفافہ دکھایا۔ مجھے تسلی ہو گئی تو میں واپس اندر آگئی۔ شام میں میں اور میرے بچے باہر نکلے اور میں پورچ میں اس آدمی کے ساتھ بیٹھ گئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک مچھیرا ہے اور اپنے گاؤں سے ادھر صرف اپنے علاج کے لیے مہینے میں ایک دو بار آنا اس کی مجبوری تھی۔ وہ ابھی تک مچھلیاں پکڑ پکڑ کر گزر بسر کرتا تھا۔ در حقیقت اسے اپنے لیے اس امر کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس کی ایک بیٹی کی شادی ایسے آدمی سے ہو گئی تھی جو معزور تھا اور جوانی میں ہی بستر سے جا لگا تھا۔ اس کے پانچ نواسے نواسیاں تھیں اور ان کا پیٹ بھرنے کے لیے وہ بیچارہ اس عمر میں بھی اتنی محنت کرتا تھا۔ خیر وہ ہر بات اس طرح شروع کرتا تھا کہ: اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔۔میں اس کی بھلائی سے بہت متاثر ہوئی، اللہ جانے کیوں اس نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا اور وہ میرے بچوں کو بھی بہت اچھا لگا تھا۔ اس نے صبح چار بچے کی بس سے گاؤں کے لیے واپس روانہ ہونا تھا۔ میں اس کی ملنسار فطرت سے اتنی متاثر ہوئی تھی کہ میں نے اس کو بتایا کہ جب بھی وہ شہر علاج کے لیے آئے تو ہمارے گھر بلا تکلف ٹھہر سکتا ہے۔ اسے آئندہ کسی اور محلے والے کے پاس جا کر بے آبرو ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
اس کے بعد بھی وہ پانچ چھے مہینے آکر اپنا علاج کرواتا رہا اور ہر ماہ میں دو سے تین مرتبہ شہر آتا اور ہمارا مہمان بنتا تھا۔ وہ جب بھی آتا تو دریا کی بڑی سے بڑی اور فریش ترین مچھلیاں لے کر آتا اور میں اور میرے بچے بڑے شوق سے فرائی کر کے کھاتے تھے۔ وہ جب نہیں بھی آتا تو بھی ہماری طرف اپنے کھیتوں کی سبزیاں اور مچھلیاں بجھواتا رہتا تھا۔ جب میں یہ سوچتی تھی کہ اس کے پاس اتنی قلیل رقم ہے اور وہ اتنا دور تک چل کر گاؤں سے چٹھیاں بھیجتا تھا، تو مجھے اس کے خلوص پر اور زیادہ اچھا محسوس ہوتا تھا۔ اس کے تمام تحفے میں اور میرے بچے بہت پسند کرتے تھے۔ ایک دن میری ایک پڑوسن بولی کہ وہ جو آدمی اتنا بد صورت ہے، اسے ادھر مت ٹھہرایا کرو کیونکہ اس طرح تمہارے کرائے دار شکایت کریں گے۔ جانتی نہیں ہو کہ سارا محلہ اسے رکھنے سے انکاری ہو جاتا ہے تو تم کیوں اپنے لیے مصیبت پالتی ہو۔ مجھے اس عورت پر بے حد غصہ آیا لیکن میں چپ رہی۔ ایک دن میں اپنی ایک پرانی سہیلی کے گھر گئی ہوئی تھی کہ اس کا باغ دیکھ رہی تھی۔ اس نے بہت اچھا مین ٹین کیا ہوا تھا کہ میری نظر ایک ٹیولپ کے پھول پر پڑی۔ بہت حسین تھا اور سارے باغ میں سب سے جاذب نظر تھا۔ لیکن اس نے اسے ایک گندی سی بالٹی میں لگایا ہوا تھا۔
جب میری دوست چائے لے کر آئی تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پوچھا کہ پاگل ہو کیا، سب سے پیارا پودہ اس طرح کی بالٹی میں ڈالا ہوا ہے؟ تو آگے سے بولی کہ یہ میں ابھی ابھی نرسری سے خرید کر لائی ہوں، اس کو میں ابھی سب سے اچھے گملے میں لگاؤں گی۔ ایک دم میرے دل سے ایک عجیب خیال گزرا کہ قیامت کے دن جب اللہ اس بوڑھے کو بلائے گا تو بولے گا کہ تم سب سے خوبصورت دل کے مالک تھے تو یہ لو آج میں تمہارا ظاہر تمہارے باطن کی طرح بنا رہا ہوں۔ کیانکہ اس دنیا کی زندگی تو مچھر کا پر بھی نہیں ہے، اور جیسے ہی اس باغ کا سب سے حسین پھول اپنے خالق سے ملے گا تو وہ اس کو فورا پہچان لے گا اور اس کا گملا جھٹ سے بدل دے گا۔ ایک لمحے کے لیے میرے دل میں شدید رشک نے جنم لیا کہ وہ کیسا قد آور حسین سانچہ ہو گا جو اتنے خوبصورت دل کو خود میں سموئے گا۔

No comments:

Post a Comment

MCM 304 MASS MEDIAN IN PAKISTAN ASSIGNMENT NO 2

MASS MEDIA IN PAKISTAN (MCM-304) Assignment No 2 Marks: 15 Q. 1     Women Magazines focus on the interests of women and the...