اے ٹی ایم مشین کے باہر لوگ لائن میں کھڑے تھے‘ میں بھی لائن میں لگ گیا‘ میرے آگے ایک درمیانی عمر کا آدمی کھڑا تھا جس کے چہرے پر چھوٹی داڑھی اور ماتھے پر نماز کا نشان تھا‘اتنے میں وہاں سے ایک ادھیڑعمر ماڈرن خاتون گزری جس نے بغیربازو کی قمیض پہن رکھی تھی۔ میرے آگے کھڑے شخص نے اسے دیکھا تو اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے پھر ہاتھ جوڑ کر اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور زور زور سے پھونکیں مار مار‘ اللہ معاف کرے‘ اللہ معاف کرے کہنے لگ گیا‘میں نے گھبرا کر پوچھا کہ خیر ہے؟ اس نے میری توجہ اس سلیو لیس بازووالی ادھیڑعمر خاتون کی طرف کروائی اور کہا کہ میں خود ہی فیصلہ کروں کہ ہمارے ملک میں زلزلے‘ سیلاب نہیں آئیں گے تو کیا آئے گا‘اس نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگانے کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک اے ٹی ایم مشین فارغ ہوئی اور وہ اندر چلا گیا۔ پیسے نکلوا کر باہر نکلا تو گلا صاف کرنے کے انداز میں کھانسا اور پھر منہ بھر کر بیچ راستے میں تھوک پھینک دیا۔کچھ عرصہ بعد اسی طرح کے ایک اور صاحب سے واستہ پڑا‘
ایک بنک کے اندر ٹوکن لے کر اپنی باری کا انتظار کررہا تھا‘ اتنے میں ایک جوان خاتون آئی جس نے جارجٹ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے‘ میرے ساتھ بیٹھا ایک لڑکا جو شاید کسی پراپرٹی ڈیلر کا ملازم تھا توبہ توبہ کرنے لگ گیا‘میں نے وجہ پوچھی تو اس عورت کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ زرا اس کے لباس کو دیکھیں‘ شرم سے آنکھیں جھک جائیں گی‘میں نے اس عورت پر ایک سرسری سی نظر ڈالنے کے بعد اس ملازم کی طرف دیکھا جو مسلسل اس عورت کے جسم کا بغور معائنہ کررہا تھا اور ساتھ منہ ہی منہ میں شاید استغفار بھی کررہا ہو‘ جب تک وہ عورت وہاں سے چلی نہ گئی‘ اس ملازم نے عورت کے جسم سے آنکھیں نہیں ہٹائیں۔
اتنے میں اس کے موبائل کی گھنٹی بجی جس پر ایک انڈین گانا لگا تھا۔ کال کرنے والے نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو اس نے آگے سے جواب دیا کہ وہ اپنے بچے کو لے کر ہاسپٹل میں ہے اور اسے دو سے تین گھنٹے لگ جائیں گے‘کال منقطع کرکے اس نے میری طرف دیکھا اور بغیر کسی شرمندگی کے کہا کہ لوگ بھی ہر وقت پیچھے پڑے رہتے ہیں‘ جھوٹ بولے بغیر گزارا نہیں‘ان دونوں واقعات کا میں عینی شاہد ہوں اور شاید آپ بھی ایسے تجربے سے گزرتے رہتے ہوں گے‘ ہمارے معاشرے کے تمام اصول اور اسلامی ضابطے صرف اور صرف عورت کے کپڑوں اور اس کے فیشن تک محدود ہو چکے ہیں‘ اس کے علاوہ معاشرتی برائیاں‘ گندگی‘ جھوٹ‘ کرپشن‘ رشوت‘ بداخلاقی‘ پڑوسیوں کو تنگ کرنا‘ وعدہ خلافی‘ بات بات پر جھوٹی قسمیں کھانا‘ ناپ تول میں کمی‘ بات بات پر گالی نکالنا وغیرہ پر ہمیں نہ تو توبہ یاد آتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا احساس شرمندگی ہوتا ہے۔
No comments:
Post a Comment